اپنی دریدہ ذات پہ ہم نے ، رفو کئے ہر چند بہت

چادر اصل تو تھوڑی رہ گئی ، اور ہوئے پیوند بہت

زیست کی ساری تلخی سہہ لی ، پل بھر کا جو پیار ملا

زہر کا پورا پیالہ بھی ہو ، تو چٹکی بھر قند بہت

ہر چہرہ اک کھلا صحیفہ ، دل سے پڑھو تو علم اتھاہ

دل کا دریچہ بند رہے تو اک چٹکی پاژند (۱) بہت

سب بُقراط بزعمِ خود ہیں ، کوئی یہاں ہمدرد نہیں

غم خواری کو سب گونگے ہیں ، سب کے لب پر بند بہت

وقت ادھر اک بپھری ندی ہے ، ہر لحظہ اک لہر نئی

اور ادھر ہم ماضی کی زنجیروں کے پابند بہت

سچ کی ہمت کیسے کرتے ، ہم بے بس مجبور مگر

جھوٹی قسموں پر شرمندہ ، ہوئے تری سوگند بہت

دل سے نکلی آہ بھی بھاری ، مہرؔ ہزاروں شبدوں پر

دو غزلہ ، سہ غزلہ کیسا ، ، اچھے شعر تو چند بہت

۱۔ پاژند : بہت قدیم زرتشت کی کتاب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]