اک انوکھی طرب سے روشن ہے

گنبدِ سبز سب سے روشن ہے

حضرتِ جبرائیل کا ماتھا

اُن کو معلوم کب سے روشن ہے

ہر ستارہ نظامِ شمسی کا

اُن کے رخسار و لب سے روشن ہے

قوتِ دید اُس نگاہ کی سوچ

وہ جو دیدارِ رب سے روشن ہے

نقشِ نعلین دل پہ رکھتا ہوں

طاقِ دل اُس کی چھب سے روشن ہے

روزِ محشر مری یہ فردِ عمل

مدحِ ماہِ عرب سے روشن ہے

صبحِ طیبہ سے پہلے شب دیکھیں

کس عجب طرز و ڈھب سے روشن ہے

جب سے دیکھا ہے گنبدِ اخضر

میری بینائی تب سے روشن ہے

ہر دو عالم کا منظرِ ہستی

نورِ محبوبِ رب سے روشن ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]