اک جہانِ رنگ و بو اعزاز میں رکھا گیا

خاک تھا میں، پھول کے انداز میں رکھا گیا

حیثیت اُس خاک کی مت پوچھئے جس کے لئے

خاکدانِ سیم و زر آغاز میں رکھا گیا

ق

اک صلائے عام تھی دنیا مگر میرے لئے

اک تکلف دعوتِ شیراز میں رکھا گیا

ایک خوابِ آسماں دے کر میانِ آب و گِل

بال و پر بستہ مجھے پرواز میں رکھا گیا

بربطِ منظر پہ رکھ کر شرطِ مضرابِ نظر

نغمہائے بے صدا کو ساز میں رکھا گیا

ایک خوئے جستجو دی، ایک دستِ ممکنات

زندگی کو آدمی سے راز میں رکھا گیا

کھا رہا ہے تیرگی سے بس لڑائی کا فریب

وہ دیا جو حجرۂ در باز میں رکھا گیا

اک جہانِ حرف کتنی بار ٹوٹا اور بنا

تب کہیں احساس کو الفاظ میں رکھا گیا

بن گئی میرا تشخص میری خاموشی ظہیرؔ

درد کچھ ایسا مری آواز میں رکھا گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]