اک عہدِ گزشتہ کے کنارے پہ ٹِکا ہوں

گویا کہ میں سُولی کے سہارے پہ ٹِکا ہوں

اک وحشتِ پُر خار کی وادی پہ معلق

میں ہوں کہ توقع کے غبارے پہ ٹِکا ہوں

سو سنگِ گراں ڈوب چکے وزن سے اپنے

تنکا ہوں تبھی وقت کے دھارے پہ ٹِکا ہوں

دیکھا ہے نمُو نے بھی کئی روپ بدل کر

اک میں ہی زمیں نا می سیارے پہ ٹِکا ہوں

سیماب طبیعت ہوں مجھے چین کہاں ہے

لرزاں ہوں مگر تیرے اشارے پہ ٹِکا ہوں

بے انت خلاؤں میں تخیل کا قدم ہوں

پھسلا ہوں شہابوں پہ ، ستارے پہ ٹِکا ہوں

اب سانس بھی لوں میں ، تو بگڑتا ہے توازن

مشکل سے تھرکتے ہوئے پارے پہ ٹِکا ہوں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]