اگرچہ دہر میں مسلم ذلیل و خوار ہے ساقی

مگر پھر بھی شرابِ ناز سے سرشار ہے ساقی

ابھی تک ہچکچاتا ہے درِ باطل پہ جھکنے سے

ابھی تک اس میں حق کی قوتِ اظہار ہے ساقی

ابھی مستِ مئے ایماں ، ابھی محوِ عبادت ہے

ابھی تک اس کے لب ہر وردِ استغفار ہے ساقی

ابھی تک اس کے دل میں کچھ نہ کچھ خوف الہی ہے

ابھی در پردہ دل اس کا تجلی زار ہے ساقی

ابھی تک دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھتا ہے

ابھی تک یہ شفیق و مشفق و غمخوار ہے ساقی

ابھی تک ہمت و فرزانگی بھی اس میں باقی ہے

ابھی اس کا مذاقِ زندگی ہموار ہے ساقی

ابھی تک اس کے دل میں الفتِ شاہِ مدینہ ہے

ابھی تک یہ شریعت کا علم بردار ہے ساقی

ابھی قربان ہوسکتا ہے ناموسِ پیمبر پر

ابھی مستِ شراب جذبہ ایثار ہے ساقی

ابھی تک یہ زمانے کے حوادث سے نہیں ڈرتا

ابھی تک یہ حریفِ لذت آزار ہے ساقی

ابھی تک اس میں استقلال بھی ہے عزم محکم بھی

ابھی تک ملتِ کبری حیات آثار ہے ساقی

ہم آغوشِ ثریا پھر مقدر اس کا ہوجائے

فقط اک جنبشِ چشمِ کرم درکار ہے ساقی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]