اگر ہے رسم تو ہم بھی گلہ نہیں کرتے

حسین لوگ کسی سے وفا نہیں کرتے

بلند اپنے جنوں کا وقار رکھتے ہیں

جو چاک کر لیا دامن سِیا نہیں کرتے

او جانے والے انہیں بھی سمیٹ کر لے جا

بکھر کے پھول دوبارا کھلا نہیں کرتے

رکھے ہیں کس لیے صیاد اس قدر پہرے

یہ بِن پروں کے پرندے اُڑا نہیں کرتے

ہم اس کے تیروں کو دل سے لگائے بیٹھے ہیں

جو زخم اس نے دئیے ہیں گِنا نہیں کرتے

خدا کرے وہ سمجھ جائیں دل کی باتوں کو

لبوں سے ہم جو بیاں مدعا نہیں کرتے

مرے طبیب ہوئے مجھ سے کس قدر مایوس

دعا تو کرتے ہیں لیکن دوا نہیں کرتے

یہ مجھ سے کہتے ہیں محفل میں جل کے پروانے

جو عشق کرتے ہیں ناصرؔ ، جیا نہیں کرتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]