ایک سے ایک سخن ور ہے مگر کس میں مجال

جو کرے شاہِ دو عالم کی ثنا تا بہ کمال

ان کی تخلیق میں صناعی فطرت کا کمال

شکل و صورت کی کہیں ان کی نہ سیرت کی مثال

بدرِ کامل ہے نہ خورشید نہ انجم نہ ہلال

پیکرِ حسن کی تمثیل ہی ملنی ہے محال

امتزاج اتنا حسیں صورتِ زیبا میں کہ بس

اک طرف حسن و جمال ایک طرف رعب و جلال

آپ کے خلق کو خالق نے کہا خلقِ عظیم

نگہِ عشق میں اس درجہ وہ فرخندہ خصال

شہرِ طیبہ کے لئے کوچ کیا را توں رات

پاتے ہی حکمِ خداوندِ جہاں جلّ جلال

اس بلندی نے خوشا چوم لئے پائے حضور

جس بلندی پہ نہ پہنچے پرِ پروازِ خیال

کتنا عالی ہے وہ دربارِ مدینہ کہ جہاں

ہیں سلاطین بھی پھیلائے ہوئے دستِ سوال

اپنی امت کی طرف پھر ہو نگاہِ الطاف

آخرت کی نہ جسے فکر نہ اندیشۂ حال

ہیں پسِ مرگ بھی صدیقؓ و عمرؓ پہلو میں

دونوں خوش بختوں کو حاصل ہے ترا کیفِ وصال

عرصۂ حشر کی ہیبت سے سبھی ہیں ترساں

دیدنی ہے تو فقط ان کے غلاموں کا مآل

ان کے روضہ کی زیارت سے مشرف ہو نظرؔ

یا الٰہی ہے مرا تجھ سے یہی ایک سوال

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]