اے وقت ذرا تھم جا، یہ کیسی روانی ہے

آنکھوں میں ابھی باقی اک خوابِ جوانی ہے

کیا قصہ سنائیں ہم اس عمرِ گریزاں کا

فرصت ہے بہت تھوڑی اور لمبی کہانی ہے

اک راز ہے سینے میں، رکھا نہیں جاتا اب

آ کر کبھی سن جاؤ اک بات پرانی ہے

سچے تھے ترے وعدے، سچے ہیں بہانے بھی

بس ہم کو شکایت کی عادت ہی پرانی ہے

جو کچھ بھی کہا تم نے، تم کو ہی خبر ہو گی

ہم نے تو سنا جو کچھ دنیا کی زبانی ہے

گزری جو بنا تیرے اُس عمر کا افسانہ

ہونٹوں کی خموشی ہے، آنکھوں کا یہ پانی ہے

اے یادِ شبِ الفت! کچھ اور تھپک مجھ کو

پلکوں پر ابھی باقی دن بھرکی گرانی ہے

امید کی خوشبو ہے، یادوں کے دیئے روشن

ہر وقت تصور میں اک شام سہانی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]