اے گل باغ شاہ دیں نواب

شیر یزداں کے جانشیں نواب

رشک کرتے ہیں اولیاء تجھ پر

منزلیں وہ تجھے ملیں نواب

آہوانِ جمال جس پہ فدا

ہے تری چشم سرمگیں نواب

سوچ کر تیرے خندۂ لب کو

میری دنیا ہوئی حسیں نواب!

تحفۂ دید کی تمنا ہے

اے قرار دل حزیں نواب!

سارے اہل کمال و اہل ہنر

ہیں ترے در کے خوشہ چیں نواب

میں نے جس موڑ سے پکارا ہے

آئے امداد کو وہیں نواب

مل گیا آپکا در عالی

آسماں پا گئی، زمیں نواب

چاندنی شفقتوں کی بکھرا دو

میرے رشکِ مہہِ مبیں نواب !

تونے پلکیں اٹھائیں جس لمحہ

خم ہوئی وقت کی جبیں نواب

میرے دل کے صدف میں مثل گہر

ہے تری یاد جاگزیں نواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]