باجرے کی جو اک خشک روٹی ملی

باجرے کی جو اک خشک روٹی ملی ، اس میں چڑیوں کا حصہ بھی رکھتے رہے

کتنی چھوٹی سی بستی تھی بستی مری ، اور بستی میں کتنے بڑے لوگ تھے

اوس موتی نما ، اشک موتی نما ، اور پیشانیوں کا پسینہ گہر

شہر کیا تھا جڑاو گُلو بند تھا جس میں موتی کے جیسے جڑے لوگ تھے

وقت کے تازیانوں کی بوچھار میں ، سر جھکائے زمیں چیرتے ہی رہے

وار ہوتے رہے کہ کڑا وقت تھا ، وار سہتے رہے کہ کڑے لوگ تھے

گرد سے طاق نسیان کے اٹ گئے ، نقش لیکن ابھی تک نگاہوں میں ہیں

وقت کی آندھیوں کے بدن چِر گئے ، کیا صنوبر کے جیسے کھڑے لوگ تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]