بادۂ عشقِ پیمبر چاہیے

یہ نشہ ہم کو برابر چاہیے

گوھرِ دیدار گر درکار ہو

گوشۂ چشمِ غمیں تر چاہیے

کرب سے نِکھرے گا اور اُن کا خیال

دل کے آئینے کو جوہر چاہیے

اُن کے در پر حاضری کے واسطے

الفت و اخلاص کا زر چاہیے

زائرو! ذکرِ حرم کرتے رہو

کچھ علاجِ قلبِ مضطر چاہیے

دشمنِ جاں کی بھلائی کے لیے

وسعتِ ظرفِ پیمبر چاہیے

جو خدائے پاک کا محبوب ہو

اس حسیں پیکر کو کیونکر چاہیے

ذہن میں اُن کا تصوّر ہو مکیں

دل میں اُن کی یاد مضمر چاہیے

نعتِ ممدوحِ خدا کے واسطے

لُمعۂ اسُلوبِ داور چاہیے

تذکرہ حضرت کا ہوتا ہو جہاں

ایسی مجلس میں نِگوں سر چاہیے

حاصلِ احساس ہے لا حاصلی

اب تو کچھ ذکرِ پیمبر چاہیے

قریۂ مہ کو سُدھاریں اہلِ دہر

مجھ کو تو سرکار کا در چاہیے

رُوح بھی شاداب ہو ہی جائے گی

ذکرِ آقا میں زباں تر چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]