بجھتے بجھتے بھی اندھیروں میں کرن چھوڑ گیا

وہ مرا شوخ ستارہ جو گگن چھوڑ گیا

خواب تو خواب مجھے نیند سے ڈر لگتا ہے

جانے والا مری پلکوں پہ شکن چھوڑ گیا

اُس نے بھی چھوڑ دیا مجھ کو زمانے کے لئے

جس کی خاطر میں زمانے کے جتن چھوڑ گیا

کسی زیور کی طرح اُس نے نکھارا مجھ کو

پھر کسی اور کی جھولی میں یہ دھَن چھوڑ گیا

دے رہا ہے مجھے پسپائی کے طعنے وہ بھی

میری رفتار میں جو اپنی تھکن چھوڑ گیا

بھول جانے کی قسم لے گیا وہ رشکِ گلاب

یاد رکھنے کو مہک، رنگ، چبھن چھوڑ گیا

دستکِ دستِ طلب بس میں نہیں تھی اس کے

سو میں دہلیز پہ خود اپنا بدن چھوڑ گیا

نہ کوئی آگ لگائی، نہ ڈھلا پانی میں

کیسا آنسو تھا کہ آنکھوں میں جلن چھوڑ گیا

تھک کے بیٹھا تھا برابر میں کوئی پاس مرے

اور مرے کاندھے پہ برسوں کی تھکن چھوڑ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]