بدن میں زندگی کم ہے سوا اذیت ہے

رگیں ادھیڑ کے دیکھو کہ کیا اذیت ہے

تو کیا خدا مری حالت سمجھ نہیں سکتا

میں چیخ چیخ کے بولوں ؟ خدا ! اذیت ہے

لویں اجاڑ دیں اور روشنی کا قتل کیا

چراغِ شام سے پوچھو ، ہوا اذیت ہے

ہزار بار کی مانگی ، نہیں قبول ہوئی

ہم ایسے منکروں کو اب دعا اذیت ہے

خوشی تو آئی تھی مہمان چار دن کی مگر

خدا کا شکر بڑی دیرپا اذیت ہے

تمہارے بعد کہاں دیکھتے ہیں چہرے کو

ہمارے سامنے یہ آئینہ اذیت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]