بدن پہ تیرگی چھا جائے ، نیند آنے لگے

چراغِ اسمِ محمّد مُجھے جگانے لگے

یہ کیسا فطری تعلّق ہے چشم و اسم کے بیچ

کہ تیرا ذکر ہُوا اور ابر چھانے لگے

عجیب کیف سا چھایا رہا شبِ معراج

دِیے وجود کے طاقوں پہ جِھلملانے لگے

ترے مدارِ ثنا ہی میں مُنقلب ہُوا مَیں

بدن کے مُردہ عناصر کہیں ٹھکانے لگے

عجیب لَے میں سَحَر دَم جو نعت مَیں نے پڑھی

طرح طرح کے پرندے قریب آنے لگے

درود پڑھتا رہا اور مُجھے خبر نہ ہُوئی

گلاب قدموں میں رکھ رکھ کے لوگ جانے لگے

ترے ہی دھیان میں ڈوبا ہُوا تھا مَیں سرِ شام

کہ آسماں سے ستارے مُجھے بُلانے لگے

ترا کرم کہ مَیں ٹُوٹا تو جوڑنے کے لئے

تمام ہاتھ مری کرچیاں اُٹھانے لگے

بس ایک آن میں ہی انشراحِ صدر ہُوا

مرے رُکے ہُوئے سانسوں میں سانس آنے لگے

یہ میرا بخت کہ از خود ہی نعت اُتر آئی

حضور میرے تصوّر میں آپ آنے لگے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]