برائے مدح کہوں نوّرَ اَلقمر آقا

سلام پڑھتے ہیں تم پر شجر، حجر آقا

تمھارے دستِ کرم سے رواں ہوئے چشمے

جدھر اشارہ ہوا جھک گیا قمر آقا

عدن کے باغ کی نکہت ہو یا کہ مشکِ ختن

ترے پسینے سے پاتے ہیں سب اثر آقا

میں اس امید پہ محفل سجائے رکھتا ہوں

کبھی تو آپ بھی آئیں گے میرے گھر آقا

وفورِ نور سے بھر جائیں گے گلی کوچے

خوشی سے جھومیں گے میرے بھی بام و در آقا

میں تشنہ لب ہوں مگر بے نوا نہیں ہوں حضور

کہ آپ ہی تو ہیں سلطانِ بحر و بر آقا

تمھارے در کے غلاموں کا میں غلام رہوں

مرے لیے ہے یہ نسبت ہی معتبر آقا

بہت اداس ہوں شہرِ مدینہ آنے کو

خدارا اب تو کوئی آئے نامہ بر آقا

شکستہ خواب ہے ، دامن دریدہ ہے منظرؔ

طفیلِ حضرتِ حسنین اک نظر آقا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]