(برگد جیسے لوگوں کے نام)

کوئی بھی رُت ہو چمن چھوڑ کر نہیں جاتے

چلے بھی جائیں پرندے، شجر نہیں جاتے

ہوا اُتار بھی ڈالے اگر قبائے بدن

بلند رکھتے ہیں بازو بکھر نہیں جاتے

گئی رتوں کے سبھی رنگ پہنے رہتے ہیں

شجر پہ رہتے ہیں موسم گذر نہیں جاتے

خمیر بنتے ہیں مٹی کا ٹوٹ کر بھی شجر

جنم دوبارہ سے لیتے ہیں، مر نہیں جاتے

جو برگ و بار سے عاری ہوں، سائے سے خالی

وہ کٹ کے جلتے ہیں سو بے ثمر نہیں جاتے

شجر تو ان کے بھی ناموں کو زندہ رکھتے ہیں

وہ بد نصیب جو گھر لوٹ کر نہیں جاتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]