برگِ گل، شاخ ہجر کا کر دے

اے خدا! اب مجھے ہرا کر دے

ہر پلک ہو نم آشنا مجھ سے

میرا لہجہ بہار سا کر دے

مجھ کو روشن مرے بیان میں کر

خامشی کو بھی آئینہ کر دے

بیٹھ جاؤں نہ تھک کے مثل غبار

دشت میں صورتِ صبا کر دے

میری تکمیل حرف و صوت میں ہو

مجھے پابند التجا کر دے

کون دستک پہ کان دھرتا ہے

تو مرے ہاتھ دل کشا کر دے

اے جمالِ دیار کشف و کمال

موجۂ رنگ کو نوا کردے​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

کرم ایسا کبھی اے ربِ دیں ہو

نبی کا سنگِ در میری جبیں ہو نگاہوں میں بسا ہو سبز گنبد لبوں پر مدحتِ سلطانِ دیں ہو سکوں کی روشنی صد آفریں ہے نبی کی یاد ہی دل کی مکیں ہو محبت ، پیار ، امن و آشتی کا مرا کردار سنت کا امیں ہو ہمیشہ دین کے میں کام آؤں مرا ہر […]