بس ایک حاصلِ خواب و خیال، سامنے تھا

مدینہ، شہرِ جمال و کمال، سامنے تھا

کوئی بھی لفظ سپردِ سخن نہ ہو پایا

وجود پورا مجسم سوال سامنے تھا

نگاہِ شوق ہی تابِ نظر کی جویا رہی

وہ ُحسنِ تام بہ حد کمال سامنے تھا

نظر پڑی جو کھجوروں کی اوٹ کے مابعد

تو شہرِ جود و عطا و نوال سامنے تھا

وہ ایک رشکِ بہاراں تھا ُگنبدِ خضریٰ

مَیں ایک برگ بُریدہ سی ڈال سامنے تھا

طلب کا سارا ہی منظر بکھر گیا یکسر

کریم سامنے تھا، خستہ حال سامنے تھا

عجیب ساعتِ اذنِ سخن رہی مقصودؔ

کہ بحرِ نعت کے تشنہ مقال سامنے تھا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]