بصد تضرع ، قدم قدم پر ادب کے سجدے لٹا رہے ہیں

نبی کے شہر کرم کی جانب نبی کے دیوانے جا رہے ہیں

نبی کے روضے کے سامنے ہیں نبی کے لطف و کرم کے صدقے

لگے ہیں دل پر جو داغ عصیاں ہم آنسوؤں سے مٹا رہے ہیں

جو دل بچھائیں در نبی پر جو خاک طیبہ سجائیں سر پر

دعا و تبریک کے تحائف ملایکہ سے وہ پا رہے ہیں

جہانِ ظلمت کا خوف کیسا؟ سیاہئ شب کی فکر کیسی؟

نجوم ذکر شہ امم سے ہمارے دل جگمگا رہے ہیں

جنہیں ابھی تک نہ دید طیبہ کا جام شیریں ہوا میسر

وہ تشنہ لب عالم تصورمیں پیاس اپنی بجھا رہے ہیں

جو ہجر طیبہ کی گرمیوں سے سلگ رہے تھے تڑپ رہے تھے

وہ بارش رحمت و کرم میں نہال ہوکر نہا رہے ہیں

درود کا ورد کرتے رہیے نبی کو ہر وقت یاد رکھیے

صبا سنائے گی پھر یہ مژدہ کہ چلیے آقا بلا رہے ہیں

ہے مصطفےٰ پر جنہیں بھروسہ، غلام جتنے ہیں مصطفےٰ کے

کسی بھی سیلاب رنج و غم کو کہاں وہ خاطر میں لا رہے ہیں

مرے یقیں کے چمکتے کاغذپہ کوئی تحریر کر گیا ہے

بلائیں گے نور ؔتم کو آقا قریب وہ دن بھی آ رہے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]