بلندیوں کا تھا جو مسافر وہ پستیوں سے گزر رہا ہے

تمام دن کا سلگتا سورج سمندروں میں اتر رہا ہے

تمہاری یادوں کے پھول ایسے سحر کو آواز دے رہے ہیں

کہ جیسے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا مری گلی سے گزر رہا ہے

الگ ہیں نظریں الگ نظارے عجب ہیں راز و نیاز سارے

کسی کے جذبے چمک رہے ہیں کسی کا احساس مر رہا ہے

عجیب جوش جنوں ہے اس کا عجیب طرز وفا ہے میرا

میں لمحہ لمحہ سمٹ رہی ہوں وہ ریزہ ریزہ بکھر رہا ہے

نظر میں رنگین شامیانے محبتوں کے نئے فسانے

یہ کون ہے دل کے وسوسوں میں جو مجھ کو بے چین کر رہا ہے

تمام الفاظ مٹ چکے ہیں بس ایک صفحہ ابھی ہے باقی

اسے مسلسل میں پڑھ رہی ہوں جو نقش دل پر ابھر رہا ہے

وہ میرے اشکوں کے آئنے میں سجا ہے میناؔ کچھ اس طرح سے

کہ جیسے شبنم کے قطرے قطرے میں کوئی سورج سنور رہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]