بُوند خوشبوئے ہوا ہے جو سمندر سے اُٹھے

گھر نہیں جاتا وہ کافر جو ترے درسے اُٹھے

اک تجلی سے ہوا حسنِ تجلی کا ظہور

اور پھر سارے نظارے اسی منظر سے اُٹھے

اسی بھائی کو لقب سجتا ہے مولائی کا

جو ترے کاندھوں پہ بیٹھے ترے بستر سے اُٹھے

کتنے حاکم تھے جو پہنچے نہ تری گرد تلک

کتنے عالم تری قامت کے برابر سے اُٹھے

مصرعہِ حسنِ ثنا ، بابِ نظارہ کھولے

زلفِ محبوبِ خدا چہرہِ انور سے اُٹھے

آپ کے اِذن میں تھی تابِ تکلم ورنہ

کیسے ممکن ہے صدا ہاتھ میں، پتھّر سے اُٹھے

کس نے جانا ہے مدینے جو صبا نے پوچھا

اوس کے ہاتھ کئی بار گلِِ تر سے اٹھے

عشق لکنت میں بھی تاثیر بنا دیتا ہے

دلنشیں ہوتی ہے آواز جو اندر سے اُٹھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]