بچھڑنے والے کی باتوں کا دہرانا نہیں بنتا
اگر خاموش رہتی ہوں تو افسانہ نہیں بنتا
کہانی کار تھوڑی دیر قصہ جاری رہنے دے
کہ بالکل درمیاں آکر تو مرجانا نہیں بنتا
انہیں آواز دے دے کر پرندے خود بلاتے ہیں
کوئی مرضی سے ان پیڑوں کا دیوانہ نہیں بنتا
تم ایسے نرم رو چہرے پرستانوں میں جچتے ہیں
ادھر اک دشت ہے اور دشت میں آنا نہیں بنتا
ہزاروں لوگ ہونگے دشمنی میں جی رہے ہونگے
کہ ہر اک شخص کا آپس میں یارانہ نہیں بنتا
تو پھر کیا ہے کوئی بچھڑا ؟ بچھڑ بھی جایا کرتے ہیں
مرے ماتم کناں اتنا بھی کرلانا نہیں بنتا
میں یوں بے کار ہوتی جارہی ہوں عشق میں کومل
کبھی برتن نہیں دھلتے کبھی کھانا نہیں بنتا