بچھی ہے مسندِ عز و وقار ان کے لیے

سروں کو خم ہیں کیے تاجدار ان کے لیے

سجی ہے ان کے لیے محفل نجوم و قمر

ہے آسمان کو حاصل قرار ان کے لیے

درود پڑھتی ہیں سر سبز وادیاں ان پر

رواں دواں ہیں سبھی آبشار ان کے لیے

اثاثہ نکہت طیبہ کا بھر کے دامن میں

ہوئیں ہوائیں غریب الدیار ان کے لیے

انہیں کے واسطے اثمار زندگی پہ بہار

کیے ہیں باغوں نے سولہ سنگھار ان کے لیے

ہمارا دل بھی بچھا ہے انہیں کی راہوں میں

ہماری جان بھی ہوگی نثار ان کے لیے

خزاں کے دور میں جو اْن کو یاد کرنے لگے

فصیل بن گئی موج بہار ان کے لیے

خدا نے ان کے لیے کائنات کی تخلیق

ہر ایک نقش بنا شاہکار ان کے لیے

وہ بزم جاں میں ہیں موجود کیا کریں آخر

پڑے ہیں سجدے میں برق و شرار ان کے لیے

یہ میں ہوں اور یہ ہے دامن تہی میرا

نواز دے مرے پروردگار ان کے لیے

مجیبؔ راہ تصور میں ایک مدت سے

پڑا ہے قافلہ انتظار ان کے لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]