بے وفا سے بھی پیار ہوتا ہے

یار کچھ بھی ہو یار ہوتا ہے

ساتھ اس کے جو ہے رقیب تو کیا

پھول کے ساتھ خار ہوتا ہے

جب وہ ہوتے ہیں صحن گلشن میں

موسم نو بہار ہوتا ہے

کاش ہوتے ہم اس کے پھولوں میں

اس گلے کا جو ہار ہوتا ہے

دوست سے کیوں بھلا نہ کھاتے فریب

دوست پہ اعتبار ہوتا ہے

جب وہ آتے نہیں شب وعدہ

موت کا انتظار ہوتا ہے

وصل میں بھی خیال ہجر سے دل

بے سکوں بے قرار ہوتا ہے

ہم بڑے خوش نصیب ہیں ورنہ

آپ کو کس سے پیار ہوتا ہے

تیر وہ تیر نیم کش تو نہیں

دل کے جو آر پار ہوتا ہے

حسن اخلاق اے عروس حیات

سب سے اچھا سنگھار ہوتا ہے

عشق کی کائنات کا پُرنمؔ

حُسن پروردگار ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]