تجھے خود سے نکالا ہے

تجھے محسوس کرنے کے لیے

میں نے ہزاروں کام چھوڑے ہیں

نہ جانے پھر بھی کیوں

مجھ کو لگا یہ سب خسارہ ہے

مجھے تیری محبت ڈھونگ لگتی ہے

ترے وعدے بھی لگتا ہے

کہ اک صدیوں پرانا خط

کسی شوکیس میں رکھا اُٹھاؤں

دھول مٹی صاف کر کے کھولنے بیٹھوں

لفافے سے نکالوں اور میرے ہاتھ لگنے سے

وہ کاغذ پھٹتا جاتا ہے

مکمل طور پر تو پھٹ کے چور و چور ہو جائے

سو اس سے قبل میں نے سب پرانے خط جلائے ہیں

ترے وعدے بھلائے ہیں

تجھے خود سے نکالا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]