تری زلف سمجھی اشارہ ہوا کا
بہت اوج پر ہے ستارہ ہوا کا
کماں کھنچ گئی ہے دھنک کی فضا میں
شعاعوں نے رستہ نکھارا ہوا کا
چراغوں سے ہے ربط فانوس جیسا
تو پھولوں سے رشتہ ہمارا ہوا کا
ملا یوں توازن ہمیں گردشوں سے
پرندے کو جیسے سہارا ہوا کا
خزاں زاد پتّوں پہ لکھ کر فسانے
لو آیا ہے تازہ شمارہ ہوا کا
وہ خاشاک صورت فضاؤں میں گم ہیں
جو چھُونے چلے تھے کنارہ ہوا
عجب حوصلہ اک دیا روشنی نے
دیا کر رہا ہے نظارہ ہوا کا
ق
زمینوں میں وحشی بگولے کی صورت
فلک چڑھ رہا ہے منارہ ہوا کا
قبائیں سنبھالو اے دستار والو!
کہ گلیوں میں ہے اب اجارہ ہوا کا
پلٹ جاتے ہیں بادلوں کے سفینے
مخالف ہے مٹی کے دھارا ہوا کا
نہیں بس میں شعلوں کے اتنی تباہی
ضرور اُن کو ہو گا سہارہ ہوا کا
دیئے بجھ گئے تو سوا ہو گیا حبس
نہ لے نام کوئی دوبارہ ہوا کا