تری نظر نے مرے قلب و جاں کے موسم میں

یقیں کے رنگ بھرے ہیں گماں کے موسم میں

زکوٰۃِ درد ہے واجب متاعِ الفت پر

حسابِ غم کرو سود و زیاں کے موسم میں

نہ اب تلاشِ بہاراں، نہ ڈر خزاؤں کا

ٹھہر گیا ہے چمن درمیاں کے موسم میں

وہ انتظار کا موسم بہت غنیمت تھا

بڑھی ہے تشنگی ابرِ رواں کے موسم میں

حلیف سب تہی دامانِ جستجو نکلے

اکیلے ہم چلے کارِ گراں کے موسم میں

مرے وطن میں پنپتا نہیں گلِ امید

کوئی تو بات ہے آخر یہاں کے موسم میں

ہنر نصیب خدا رکھے دست ہجرت کو

کہاں کے پھول کھلائے کہاں کے موسم میں

سخن ظہیرؔ بناؤ خیال پنہاں کو

خموشی جرم ہے لفظ و بیاں کے موسم میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]