تلاش

بندۂ حق نگر و مردِ مسلماں کی تلاش

پھر زمانہ کو ہوئی جراتِ ایماں کی تلاش

صبحِ خاموش کو ہے مہرِ درخشاں کی تلاش

شامِ تاریک کو ہے شمعِ فروزاں کی تلاش

ہے عزائم کو بلا خیزی طوفاں کی تلاش

ہے مقدر کو ابھی گردشِ دوراں کی تلاش

سینہ و دل کو ابھی گرمی ایماں کی تلاش

ہے نگاہوں کو ابھی منزلِ عرفاں کی تلاش

اہلِ ایماں کو ہے اس رفعتِ ایماں کی تلاش

لغزشِ پا کو ہو خود حلقۂ زنداں کی تلاش

ایک وہ دور کہ انساں تھے فرشتہ خصلت

ایک یہ وقت کہ انساں کو ہے انساں کی تلاش

الاماں پستی اخلاقِ زمانہ ہمدم

بے حیائی کو ہوئی دیدۂ حیراں کی تلاش

میگسارانِ حقیقت ہیں ابھی بادہ بجام

ہے انہیں فصلِ گل و ابرِ بہاراں کی تلاش

موسمِ لالۂ و گل آئے مقدر چمکے

ہو جنوں کو مرے پھر جیب و گریباں کی تلاش

شمع بردارِ شریعت کو سنا دو مژدہ

نظمِ عالم کو ہے اک شمع فروزاں کی تلاش

یا الٰہی وہ نظامِ ازلی کر برپا

جس میں حاکم کو ہو خود بے سر و ساماں کی تلاش

مجھ کو آیا ہے نظرؔ خواب میں تعبیر کرو

ہے زلیخا کو بہت یوسفِ کنعاں کی تلاش

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]