تمھاری گلیوں میں پھر رہے تھے اسیرِ درد و خراب ہجراں

ملی اجازت تو آ گئے پھر حضورِ عشق و جناب ہجراں

وہ ملنے جلنے کی ساری رسمیں در اصل فرقت کے سلسلے تھے

گئے دنوں کی رفاقتوں میں چھپا ہوا تھا سراب ہجراں

مٹے نہیں ہیں حروفِ ظلمت، ابھی گریزاں ہے صبح برات

ابھی پڑھیں گے کچھ اور بھی ہم دیارِ غم میں کتاب ہجراں

وفا شعاری کے مرحلوں سے پلٹ کے جب کامیاب آئے

ہوا مقرر نئے سرے سے شکیب دل پر نصاب ہجراں

یہ تیرے میرے لہو کی ساری کثافتوں کو نتھار دے گا

ہماری راہوں کے درمیاں میں رواں دواں ہے جو آب ہجراں

وہ دن بھی تھے جب مرا تعارف غزال چشموں کے زیب لب تھا

اور آج ان کی ہر انجمن سے ملا ہوا ہے خطاب ہجراں

ہمیں امید جزا ہے اُن سے، اسی لئے تو ظہیرؔ ہم نے

غزل کے شعروں میں لکھ دیا ہے شمارِ درد و حساب ہجراں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]