تو جو میرا نہ رہنما ہوتا

کوئی منزل نہ راستہ ہوتا

ہم کو صحرا نگل گئے ہوتے

گر نہ رہبر وہ نقشِ پا ہوتا

غم زمانے کے مار ہی دیتے

گر تمہارا نہ آسرا ہوتا

اذن پاتے ہی جسم سے پہلے

دل مدینے کو جا چکا ہوتا

شوق میرا اڑان یوں بھرتا

تیرے قدموں میں جا گرا ہوتا

رات کتنی حسین ہو جاتی

خواب ہی میں تو آگیا ہوتا

دن بھی میرا نکھر نکھر جاتا

رات یادوں میں جاگتا ہوتا

میرا مرنا بھی سہل ہو جاتا

تو دمِ نزع آ گیا ہوتا

عمر یوں ہی تمام ہو جاتی

نوری وقفِ ثنا رہا ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]