تھا یہ محبت کا اثر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

بٹ کر رہا دردِ جگر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

آئین میں ترمیم کر، انصاف سے تقسیم کر!

جنسِ وفا، حسنِ نظر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

شاداب کِشتِ حُسن ہو، سیراب ذوقِ عشق ہو

دریا بہا اے چشمِ تر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

ابرِ کرم کھل کر برس، کھل کر برس، اب کے برس

ہر دشت پر ہر کوہ پر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

کس ٹھاٹھ سے بیٹھا ہے تو اے فتنہ گر، اے فتنہ جُو

دو کرسیوں کو جوڑ کر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

زخمی اِدھر ہے میرا دل، چھلنی ادھر میرا جگر

مرہم لگا اے چارہ گر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

ہاں اے مجیدِ بے نوا، صد شکر اب تو ہو گیا

جذبِ محبت کا اثر، آدھا اِدھر‘ آدھا اُدھر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

بے اصولی اصول ہے پیارے

یہ تری کیا ہی بھول ہے پیارے کس زباں سے کروں یہ عرض کہ تو پرلے درجے کا فول ہے پیارے واہ یہ تیرا زرق برق لباس گویا ہاتھی کی جھول ہے پیارے تو وہ گل ہے کہ جس میں بو ہی نہیں تو تو گوبھی کا پھول ہے پیارے مجھ کو بلوائیو ڈنر کے […]

مجھ کو رخ کیا دکھا دیا تو نے

لیمپ گویا جلا دیا تو نے ہم نہ سنتے تھے قصۂ دشمن ریڈیو پر سنا دیا تو نے میں بھی اے جاں کوئی ہریجن تھا بزم سے کیوں اٹھا دیا تو نے گا کے محفل میں بے سُرا گانا مجھ کو رونا سکھا دیا تو نے کیا ہی کہنے ہیں تیرے دیدۂ تر ایک نلکہ […]