تیری آغوش کی جنت سے نکالے ہوئے ہم

در بدر آج بھی ہیں خواب سنبھالے ہوئے ہم

جام ہو کر بھی کہاں تیرے لبوں تک پہنچے

جشن کی رات ہواؤں میں اچھالے ہوئے ہم

آ گرے لوٹ کے دامن میں ہی کھوٹے سکے

تیرے در سے بھی ہمارے ہی حوالے ہوئے ہم

رُل گئے خاک میں دوپہر کے ہوتے ہوتے

صبح کی گود میں صد ناز سے پالے ہوئے ہم

حسن ، سو بار ، سرِ بام ِ رسائی اُترا

اور کم بخت فقط دیکھنے والے ہوئے ہم

کرب کے کانچ کو پگھلا کے کئی روپ دیے

خواب لائے ہیں نئی شکل میں ڈھالے ہوئے ہم

تُو ، محبت کا وہ پرچم ، کہ زمیں بوس ہوا

اور ہتھیار ہیں میدان میں ڈالے ہوئے ہم

خیمہِ نُور کہاں اب ، کہ تری ہجرت سے

دشت کے جسم پہ ابھرے ہوئے چھالے ہوئے ہم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]