تیرے جلووں کا ہجوم اور کدھر جائے گا

یہ گلستاں تو مرے دل میں اتر جائے گا

ایک لمحے کو تجھے دیکھ کے میں سمجھا تھا

وقت کے ساتھ یہ لمحہ بھی گزر جائے گا

میں دعا گو ہوں سلامت رہے یہ رنگِ جمال

رنگ پھر رنگ ہے اک روز بکھر جائے گا

ہاں! مرے دل کو نہ راس آئے گا زندانِ بہار

دیکھنا شدتِ احساس سے مر جائے گا

واقعہ یہ ہے کہ اک زخم ہے فرقت تیری

تجربہ یہ ہے کہ یہ زخم بھی بھر جائے گا

آج تو چاند میں اک چہرہ اُبھر آیا ہے

آج تو چاند مرے دل میں اتر جائے گا

سینکڑوں غم ستمِ دوست سے پہلے گزرے

دل سلامت رہے ، یہ غم بھی گزر جائے گا

زندگی فصلِ بہاراں کی طرح دے گی فریب

آدمی پھول کی مانند بکھر جائے گا

ٹوٹ کر دل وہی سینے میں رہے گا عاصیؔ

کوئی شیشہ ہے کہ ٹوٹے گا ، بکھر جائے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]