ثنا خواں ہوں نبی مفتخر کا

گدا میں بھی تو ہوں اس کے ہی در کا

وہ عالِم ہے امورِ مستتر کا

وہی منبع ہے ہر علم و خبر کا

ارے کیا پوچھتے ہو اس نگر کا

وہی مسکن ہے جو خیر البشر کا

ہے راحت خیز ہر سایہ شجر کا

زمیں کی خاک ہے سرمہ بصر کا

ہے اس کی شہ نشیں عرشِ معلّیٰ

ہے کیا رتبہ شہِ فرخ سِیر کا

اسی کے نقشِ پا کو ڈھونڈتا ہوں

وہی معیار ہے ہر خیر و شر کا

سلامت تا قیامت اس کا مصحف

نہ واقع ہو خلل زیر و زبر کا

شہ و سلطاں گدا ہیں اس گلی میں

بڑا ہو گا کوئی تو اپنے گھر کا

تمہاری یاد میں آنکھوں سے ٹپکے

یہی مصرف ہے بس خونِ جگر کا

قیامِ حشر تک ہمسائے تیرے

ہے اونچا بخت صدیقؓ و عمرؓ کا

بنا پھرتا ہے اشرف ابنِ آدم

ہے یہ صدقہ اسی خیر البشر کا

مسافر راہِ طیبہ کے ہیں بے خود

نہیں کچھ ہوش اپنے پاؤں سر کا

اسی شہرِ طرب میں دل پڑا ہے

وہیں لگتا ہے جی آشفتہ سر کا

کرو عجلت چلو بہرِ زیارت

بھروسہ کیا ہے عمرِ مختصر کا

مریضِ لا علاج آیا ہے در پر

علاج اے چارہ گر قلب و نظرؔ کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]