جب سے اپنا سر درِ خیر الوریٰ پر رکھ دیا

بخت میرا ربِّ کعبہ نے بدل کر رکھ دیا

یوں ہوا فیضانِ الطافِ شہِ کون و مکاں

وسعتِ دامانِ سائل سے فزوں تر رکھ دیا

اصل میں اُن کے پسینے کی مہک کا فیض ہے

نام جس کا ہم نے عُود و مُشک و عنبر رکھ دیا

واصفِ سلطان بحر و بر کا رتبہ دیکھیے

واسطے حسّان کے آقا نے منبر رکھ دیا

ہر قبیلے کو تھما کر اپنی چادر کا سرا

آپ نے دیوارِ کعبہ میں وہ پتھر رکھ دیا

ایک لمحے میں علی کی آنکھ روشن ہو گئی

جب مرے آقا نے اپنا دستِ اطہر رکھ دیا

شورشِ موّاج میں جس دم پکارا یا نبی!

موج قلزم سے مری کشتی کو باہر رکھ دیا

آ گئے سرکار میری مشکلیں حل ہو گئیں

جب مجھے احباب نے مرقد کے اندر رکھ دیا

میرے چہرے کی چمک اُس دن سے ہے ازہرؔ فزوں

جب سے اپنا سر درِ خیر البشر پر رکھ دیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]