جب مدینے میں کبھی اہلِ نظر جاتے ہیں

سرنگوں اور بہ صد دیدۂ تر جاتے ہیں

کیا بتائیں جو گزرتی ہے سرِ قلبِ حزیں

ہم مدینے سے پلٹتے ہوئے مر جاتے ہیں

طائرِ سدرہ کے پر جلتے ہیں جس سے آگے

اُس سے آگے وہ خدا جانے کدھر جاتے ہیں

خوشبوؤں سے وہ گزر گاہ مہک اُٹھتی ہے

آپ جس راہ سے اک بار گزر جاتے ہیں

لینے خیرات ترے خوانِ مطہر سے فقیر

سر بہ خم کاسہ بہ کف عشق نگر جاتے ہیں

بر سرِ صفحۂ قرطاس محمد جو لکھوں

رنگ اور نور سے الفاظ نکھر جاتے ہیں

شوقِ نظّارہ لیے عرشِ عُلا سے قدسی

سر بہ سر در پہ ترے شام و سحر جاتے ہیں

جب ترے حسنِ مکمل کا چھڑے ذکر شہا

منظرِ ہستیِ ناقص بھی سنور جاتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]