جذبِ اظہار سلامت ہے ، سخن ہے آباد

مدحتِ ساقئ کوثر ہے ہمہ خیر کُشاد

موجۂ بادِ مدینہ ! کبھی امکان کا لمس

دیر سے وقفِ تمنا ہے کوئی ہجر نژاد

وہ ترے شہر کو جاتی ہُوئی احساس کی رَو

وہ ترے کوچے کو وارفتہ رواں حرف کا زاد

مہر آثار ترے دشت کے کِھلتے ہوئے رنگ

کُحلِ ابصار ترے شہر کی خاکِ دلشاد

اور تو کچھ بھی نہیں ہے ترے مداح کے پاس

جُز تری نعت سے وابستہ سخن زارِ مُراد

جس سے مربوط ہیں دارین کی منزل کے نشاں

تا ابد خیر فزا ہے وہ تری راہِ رشاد

مژدۂ ساعتِ جلوت ! مرے امکان میں آ

ٹوٹ جائے نہ کہیں تارِ نفَس ، سازِ فواد

مہبطِ خیر ہے ، واللہ ، مدینے کی زمیں

ہالۂ نُور ہے لا ریب ، مدینے کا سواد

اِک تسلی ہے کہ وہ دیکھتے ہیں ، جانتے ہیں

کافی ہے میرے سخن کو مرے پندار کی داد

حیطۂ شوق سے باہر ہے خیالِ مدحت

محوِ تدبیرِ تمنا ہیں قلم اور مداد

اُن کو مقصودؔ عنایت کی نظر ہے زیبا

درگہِ ناز میں حاضر ہے دلِ شوقِ نہاد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]