جس بزم میں ذکرِ دلِ مغموم نہیں ہے

ترتیب ہی اُس بزم کا مقسوم نہیں ہے

ہم اہلِ وفا جادۃٔ الفت کے لیے ہیں

اے رہبرِ منزل تجھے معلوم نہیں ہے

گو سلسلہِ مہر و وفا ختم ہے ، لیکن

دل ان کی عنایات سے محروم نہیں ہے

پیدا تو کرے کوئی شعورِ نگہِ شوق

جلووں کی کمی اے دلِ مغموم نہیں ہے

تم اپنا تبسم مرے اشکوں میں سمو دو

رونے کا سلیقہ مجھے معلوم نہیں ہے

کانٹے نہ اگر ساتھ ہوں اے اہلِ گلستاں

پھولوں کا چمن میں کوئی مفہوم نہیں ہے

وہ آج سحرؔ کس لیے بیزارِ وفا ہیں

آسودۂ غم کیا دلِ مغموم نہیں ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]