جس در سے سخا پاتی ہے دینے کا قرینہ

وہ شہر ، مدینہ ہے مدینہ ہے مدینہ

اُمیدِ کرم عرصۂ ہجراں میں ہے اُن سے

ساحل پہ کسی طور لگا دیں گے سفینہ

خوشبو سے گل و لالہ و ریحان و سمن کی

بڑھ کر ہے مرے شاہِ اُمم تیرا پسینہ

تلوؤں سے ترے پائی ضیا خاکِ حرم نے

ہر ذرۂ طیبہ ہے تبھی مثلِ نگینہ

تجھ حسنِ دو عالم کی ہیں مشتاق یہ آنکھیں

چمکا دے مرے ماہِ مبیں میرا شبینہ

آپ آئیں تو اس دل کو قرار آئے مرے شاہ

سر خم ہے، قدم رکھنے کو حاضر ہے یہ سینہ

اے کاش ملے بارِ دگر شہرِ عطا میں

وہ سحری وہ افطار وہ رمضاں کا مہینہ

یہ صدقہ ہے تقلید کا جامی و رضا کی

جو مجھ کو ملا مدحتِ آقا کا قرینہ

منظر ہے کھڑا کاسہ بہ کف صحنِ حرم میں

کرتا ہے طلب شہرِ مدینہ میں دفینہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]