جس دل میں صبر، ضبط، اطاعت، وفا نہیں

وہ گھر ہے جو مکین کے لائق بنا نہیں

ایسا مرض نہیں کوئی جس کی شفا نہیں

درماں ہی وجہِ درد اگر ہو دوا نہیں

کہنے کو آدمی سے بڑے آدمی بہت

سوچو تو آدمی سے کوئی بھی بڑا نہیں

کس نے کہا کہ عشق ہے ہر درد کی دوا

آبِ بقا یہ ہو تو ہو آبِ شفا نہیں

مانا کہ مجھ میں بھی نہیں باقی رہا وہ شوق

اے ہم نشین تو بھی تو اب دلربا نہیں

پہلو تہی، درشتی، رقیبوں سے التفات

ہے کیا ستم جو آپ نے ہم پر کیا نہیں

دونوں جہاں میں ساتھ نبھانے کی بات تھی

اور اس پہ بھی جواب ملا برملا نہیں

بلبل ہو، گل ہو، شمع ہو، جگنو ہو، یا ہو چاند

ایسا نہیں ہے کوئی جو تجھ پر فدا نہیں

وہ دل ہے کیسا دل کہ نہیں جس میں سوزِ عشق

وہ آنکھ کیا ہے دید کا در جس پہ وا نہیں

گرچہ بہت طویل ہے شب انتظار کی

پر ناامیدی شیوہِ اہل وفا نہیں

پوچھا ہے اس نے چاند کو تکتے ہو کس لیے

کیا اس میں خاص بات ہے اور مجھ میں کیا نہیں

عاطفؔ تو اس کی بات سے افسردہ دل نہ ہو

وہ تندخُو ضرور ہے دل کا برا نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]