جس کا مشتاق ہے خود عرش بریں آج کی رات
ام ہانی کے وہ گھر میں ہے مکیں آج کی رات
آنکھ میں عرض تمنا کی جھلک لب پہ درود
آئے اس شان سے جبریل امیں آج کی رات
سارے نبیوں کے ہیں جھرمٹ میں نبیٔ آخر
قابل دید ہے اقصیٰ کی زمیں آج کی رات
نور کی گرد اڑاتا ہوا پہنچا جو براق
رہ گزر بن گئی تاروں کی جبیں آج کی رات
اک مقام آیا کہ جبریل کا بھی ساتھ چھٹا
وہ ہیں اور سلسلۂ نور مبیں آج کی رات
عالم قدس کے اسرار کوئی کیا جانے
وہ ہی وہ ہیں نہ زماں ہے نہ زمیں آج کی رات
مسکرائے جو نبی دیکھ کے جنت کی طرف
اور بھی ہو گئی فردوس حسیں آج کی رات