جس کی نظروں میں زرِ پائے پیمبر چمکے

سامنے اُس کے نہ گنجینۂ گوہر چمکے

بخت ذرّے کے جو یاور ہوں ، عرب تک پہنچے

خاکِ طیبہ سے لگے، مہر سے بڑھ کر چمکے

رُوبُرو گنبدِ خَضرا کے پہنچ جاؤں اگر

مجھ زیاں کار کا بھی نقشِ مقدّر چمکے

ذہن میں دشتِ مدینہ کا تصوّر آیا

پُھول اُلفت کے مِری شاخِ نظر پر چمکے

جب بھی آیا ہے کوئی زائرِ طیبہ واپس

کتنے تارے مِری پلکوں کے اُفق پر چمکے

آپ کے فیض سے ہم خلق میں اشرف ٹھہرے

آپ کے نور سے یہ خاک کا پیکر چمکے

دن پہ بھی رات کا منظر تھا مسلّط پہلے

رُوئے پُرنور سے ہر صبح کے تیور چمکے

ذکر اُن کا ہے تو ہر لب کا مقدّر بن جائے

یاد اُن کی ہے تو سِینوں میں اُتر کر چمکے

اُس کو اللہ ولی کہہ کے مراتب بخشے

ان کی سیرت جو کسی شخص کے اندر چمکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]