جفا کی اس سے شکایت ذرا نہیں آتی

وہ یاد ہی ہمیں شکر خدا نہیں آتی

نکل کے تا بہ لب آہ رسا نہیں آتی

کراہتا ہے جو اب دل صدا نہیں آتی

ہماری خاک کی مٹی ہے کیا خراب اے چرخ

کبھی ادھر کو ادھر کی ہوا نہیں آتی

شب وصال کہاں خواب ناز کا موقع

تمہاری نیند کو آتے حیا نہیں آتی

عدو ہماری عیادت کو لے کے آئے انہیں

کہاں یہ مر رہی اب بھی قضا نہیں آتی

لحد پہ آئے تھے دو پھول بھی چڑھا جاتے

ابھی تک آپ میں بوئے وفا نہیں آتی

مری لحد کو وہ ان کا یہ کہہ کر ٹھکرانا

صدائے نعرۂ صد مرحبا نہیں آتی

ستم ہے اور مرے دل شکن کا یہ کہنا

شکست شیشۂ دل کی صدا نہیں آتی

جلالؔ ہم یہ نہ مانیں گے تو اسے نہیں یاد

تجھے کبھی کوئی ہچکی بھی کیا نہیں آتی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]