جلوؤں کا تصادم کیا کہیے ، یوں شعلہ و شبنم ہوتا ہے

ہے درد دوائے الفت بھی اور غم کا ہمدم ہوتا ہے

تم عشق مجھے سمجھاتے ہو ، میں جانتا ہوں میں مانتا ہوں

تعبیر ہے جس کی رنج و الم ، وہ خواب یہ ہمدم ہوتا ہے

ساحل پہ کھڑے ہیں حیرت سے جو ان کو خبر کیا طوفاں کی

ان بے چاروں کا حسرت میں دامن ہی پُرنم ہوتا ہے

اس راہ نوردی کے قرباں ، اس کی ہر مشکل کے صدقے

جس منزل کا ہر ایک قدم منزل سے مقدم ہوتا ہے

اب یا، درِ زنداں کھل جائے یا موجِ بہاراں ٹوٹ پڑے

دشتِ وحشت میں موسمِ گل دیوانوں کا ماتم ہوتا ہے

وہ اُجڑے یا آباد رہے دل تو دل ہی ہے خدا رکھے

یہ بُت خانہ ہو یا کعبہ ، رُتبہ میں کہاں کم ہوتا ہے

تجھ سے غفلت کی امید نہیں ، کیا تیرے کرم سے بعید نہیں

ہاں دل کو نوازش پر شک ہے ، کچھ درد جو کم کم ہوتا ہے

زاہد کی نیت کچھ بگڑی ہے جو بگڑی بگڑی باتیں ہیں

ساقی کو نظر لگ جائے گی مجھ کو تو یہ غم ہوتا ہے

پُر کیف جوانی کا نغمہ ، شرمیلی نظر ، تیکھے تیور

جو دل کے تار ہلا ڈالے ، یہ کون سا سرگم ہوتا ہے

لب تک جو ہلے سکھ سے کبھی یوں زلفِ پریشاں بل کھائی

یہ ناز تو حسن کو زیبا ہے ، کیا عشق بھی برہم ہوتا ہے

میں اُن کی نظر سے سنتا ہوں اپنی ہی نظر کا افسانہ

اے اہلِ خرد ، اے اہلِ جنوں ، یہ کونسا عالم ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]