جنتر منتر دھاگے شاگے جادو ٹونے والوں نے

تیری خاطر کیا کیا سیکھا تجھ کو کھونے والوں نے

ایک طلسمی سرگوشی پر میں نے مڑ کر دیکھا تھا

مجھ کو پتھر ہوتے دیکھا پتھر ہونے والوں نے

اچھے کی امید پہ کتنے مشکل دن کٹ جاتے ہیں

خواب محل کے دیکھے اکثر خاک پہ سونے والوں نے

کتنی ماوں نے بچوں کو باتوں میں الجھایا تھا

گلیوں میں آوازیں دیں جس وقت کھلونے والوں نے

ایک طرف تو یادیں تھیں اور ایک طرف دیوان میر

دیکھ فضا افسردہ کردی کرب سے رونے والوں نے

اسم یار کا ورد وظیفہ کر کے وقت گذارا ہے

اک تسبیح بنا دی تیری یاد پرونے والوں نے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]