جونہی سرِّ رفعنا نطق کو تعلیم ہوتا ہے

مری ہر فکر کا مرکز وہ نوری میم ہوتا ہے

نگاہیں خم کیے بیٹھوں درِ آقا پہ دو زانوں

کہ اس دربار سے رزقِ ثنا تقسیم ہوتا ہے

ادائے صیغۂ کن سے ہزاروں سال پہلے ہی

وجودِ حضرتِ خیر الورٰی تجسیم ہوتا ہے

حجر ان کی گواہی دیں، شجر جھک کر سلامی دیں

بہ یک جنبش چمکتا چاند بھی دو نیم ہوتا ہے

سند ہے یہ، خدا سے وہ جدا ہرگز نہیں لوگو

کہ ذکرِ مصطفٰی ہی بعدِ ہر تحریم ہوتا ہے

سبب اِس کا بنے گی نعت گوئی مدح سامانی

جو روزِ حشر یہ بندہ وہاں تسلیم ہوتا ہے

عجب ہی اوج پر ہوتا ہے یہ زورِ سخن منظر

قلم سے حرفِ مدحت جب مرے ترقیم ہوتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]