جو دانشور خزاں کو بانجھ کہتے تھے وہ جھوٹے تھے

خزاں کا آئینہ ٹوٹا تو ہر کرچی میں بُوٹے تھے

یہیں جُھلسے ، بدن چٹخے ، یہیں پیاسوں نے جاں دی تھی

اسی صحرا سے آبِ سرد کے چشمے بھی پُھوٹے تھے

درِ زنداں کھلا ، ہم آئے باہر ، تو کھلا ہم پر

وہی زنداں کا موسم تھا کہ جس موسم میں چُھوٹے تھے

مہِ سوزاں سے آنکھیں سینکنے والوں نے کب دیکھا

شبِ مہتاب کے آنگن میں تارے ، کتنے ٹُوٹے تھے

یہ تیرا شہر ، میری عمر کو واپس نہ کر پایا

جو ماہ و سال تیرے شہر کی گلیوں نے لُوٹے تھے

تمہیں انکار گلشن میں قدم تم نے نہیں رکھا

میں کیسے مان لوں کلیاں غلط تھیں ، پھول جُھوٹے تھے

نظر ڈالی جو دل کے گلستاں پر مہرؔ تو دیکھا

کہ ساری کیاریوں میں دھول تھی ، گُل تھے نہ بُوٹے تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]