جو رنگ ہرے تھے وہ دکھائی نہیں دیتے

دکھ درد ہی پیڑوں کو رہائی نہیں دیتے

برباد کیا یوں میرے گلشن کو خزاں نے

اب گیت پرندوں کے سنائی نہیں دیتے

کچھ اور بڑھا دے نہ ستم باغ کا مالی

سہمے ہوئے طائر ہیں دہائی نہیں دیتے

آنے کو قیامت ہے کوئی اپنے جہاں پر

حالات مجھے ٹھیک دکھائی نہیں دیتے

جن لوگوں کے کردار ہیں تعظیم کے قابل

دکھ یہ ہے کہ ہم ان کو بڑائی نہیں دیتے

کن لوگوں سے خیرات طلب کرنے لگے ہو

کپڑے کی جو درزی کو سلائی نہیں دیتے

کردار کی پستی کا یہ اب حال ہے اسلمؔ

انسان بھی انسان دکھائی نہیں دیتے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]