جو نیست ہو چکا تھا عشق ہست کیسے ہوگیا

مری اسیریوں کا بندوبست کیسے ہوگیا

بڑا ہی عام تھا کبھی مرا غلام تھا کبھی

کمال ہے وہ شخص خود پرست کیسے ہو گیا

اسے نصیب تھیں محبتوں میں دلنوازیاں

وہ خودکفیل آج تنگدست کیسے ہوگیا

ابھی تو وقت کی کوئی خراش بھی نہیں پڑی

تو پھر غرور آئینوں کا پست کیسے ہوگیا

یہ کس طرح سمٹ گئیں زماں مکاں کی وسعتیں

جو فاصلہ صدی کا تھا وہ جست کیسے ہوگیا

زہے نصیب آپ کیسے ہار مان آئے ہیں

وہ طنطنہ نہاں پس- شکست کیسے ہوگیا

تمہارے قرب کی یہ بھوک کم ہوئی نہ مٹ سکی

خبر نہیں کہ دل یہ فاقہ مست کیسے ہوگیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]