جُنوں میں دامنوں، جیبوں، گریبانوں پہ کیا گزری

یہ سب دیکھیں کہ دیکھیں تیرے دیوانوں پہ کیا گزری

فنا کے ہاتھوں کیسے کیسے انسانوں پہ کیا گزری

شہنشاہوں پہ، سلطانوں پہ، خاقانوں پہ کیا گزری

ہمارے کعبۂ دل کی ارے ویرانیاں توبہ

صنم خانوں میں رونق ہے، صنم خانوں پہ کیا گزری

زمانہ کی قسم مجھ کو زمانہ خود ہی شاہد ہے

کہ انسانوں کے ہاتھوں سے ہی انسانوں پہ کیا گزری

اسیرِ زلفِ پیچاں ہیں، قتیلِ چشمِ جاناں ہیں

خدا کے ان ثنا خوانوں مسلمانوں پہ کیا گزری

انہیں کی خاک اڑ اڑ کر بتاتی ہے زمانے کو

کہ نمرودوں پہ، فرعونوں پہ، ہامانوں پہ کیا گزری

ترے جانے سے ساقی نظمِ میخانہ ہوا برہم

کہیں کیا مے کشوں، میناؤں، پیمانوں پہ کیا گزری

غبارِ راہِ منزل ہے نہ آوازِ درا باقی

سرِ منزل نہ پہنچے تھے حدی خوانوں پہ کیا گزری

بقدرِ وسعتِ ظرفِ نظرؔ احساسِ غم بھی ہے

جو ہشیاروں پہ گزری ہے وہ نادانوں پہ کیا گزری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]